EN हिंदी
اور سفر لمبا ہوا ہر گام پر | شیح شیری
aur safar lamba hua har gam par

غزل

اور سفر لمبا ہوا ہر گام پر

ناصر شہزاد

;

اور سفر لمبا ہوا ہر گام پر
تھک کے جب بیٹھے کبوتر بام پر

آ سکھی دہرائیں پھر بچپن کے دن
آ سکھی ڈالیں ہنڈولے آم پر

یہ الگ دفتر میں جا کر گم ہوئے
خیر سے لگ تو گئے وہ کام پر

ایک کاٹا رام نے سیتا کے ساتھ
دوسرا بن باس میرے نام پر

گیارہویں کے چاند تو چمکا تو تھا
شاہ کے لٹتے ہوئے خیام پر

باندھ مت جوڑے میں الٹے ہاتھ سے
تو بضد ہے تو یہ گجرے تھام پر

ماس کی جب پیاس نرگن ہے سکھی
گوپیاں شیدا ہوئیں کیوں شیام پر

ان گلابوں پر سدا یہ تتلیاں
نت کریں بسرام جھونکے پام پر

ہم سفر یہ تو یہ میں یہ تٹ یہ جھیل
پھول واریں اس انوکھی شام پر

پہلے جو تھی مہرباں ہم سب کی ماں
اب وہی دھرتی ہے بکتی دام پر

شب ڈھلی اٹھنے لگے ہوٹل سے لوگ
چائے کا یہ دور اس کے نام پر