EN हिंदी
اور نہ کھٹکا کر بابا | شیح شیری
aur na khaTka kar baba

غزل

اور نہ کھٹکا کر بابا

کیول کرشن رشیؔ

;

اور نہ کھٹکا کر بابا
اپنے آپ سے ڈر بابا

چھوڑ چلا جب گھر بابا
دیکھ نہ اب مڑ کر بابا

سب کچھ تیرے اندر ہے
کچھ بھی نہیں باہر بابا

گھوم نہ یوں کشکول لیے
صبر سے جھولی بھر بابا

یہ جینا کیا جینا ہے
جینا ہے تو مر بابا

ٹھان لیا سو ٹھان لیا
اب کیا اگر مگر بابا

بات رشیؔ کی مان بھی لے
شام ہوئی چل گھر بابا