اور منظر ہیں بہت چشم خریدار میں اب
خواب بکتے ہی نہیں شہر کے بازار میں اب
شام گل ہوتی چلی جاتی ہے رفتہ رفتہ
شمع گل جلتی نہیں گلشن دیدار میں اب
واعظ شہر نہیں شہر ستم گر بھی تمام
نقد جاں مانگتے ہیں جرأت انکار میں اب
حبس جاں ہے کہ امڈتا ہی چلا آتا ہے
بارش مے بھی چلی جاتی ہے بے کار میں اب
شیخ صاحب کبھی سیدھے تو نہیں تھے لیکن
پیچ در پیچ ہیں ان جبہ و دستار میں اب
غزل
اور منظر ہیں بہت چشم خریدار میں اب
کامران ندیم