EN हिंदी
اور مہک تھی جو اس باغ کی گھاس میں تھی | شیح شیری
aur mahak thi jo us bagh ki ghas mein thi

غزل

اور مہک تھی جو اس باغ کی گھاس میں تھی

جاناں ملک

;

اور مہک تھی جو اس باغ کی گھاس میں تھی
اس کے پاؤں کی خوشبو بھی اس باس میں تھی

تجھ بارش نے تن پھولوں سے بھر ڈالا
خالی شاخ تھی اور اس رت کی آس میں تھی

تو نے آس دلائی مجھ کو جینے کی
میں تو سانسیں لیتی مٹی یاس میں تھی

یاد تو کر وہ لمحے وہ راتیں وہ دن
میں بھی تیرے ساتھ اسی بن باس میں تھی

ہر پل تیرے ساتھ تھی میں کب دور رہی
میں خوشبو تھی اور ترے احساس میں تھی

بارش تھی شب بھر اور بھیگ رہی تھی میں
جاناںؔ کیسی شدت میری پیاس میں تھی