اور کیا مجھ سے کوئی صاحب نظر لے جائے گا
اپنے چہرے پر مری گرد سفر لے جائے گا
دسترس آساں نہیں کچھ خرمن معنی تلک
جو بھی آئے گا وہ لفظوں کے گہر لے جائے گا
چھاؤں میں نخل جنوں کی آؤ ٹھہرا لیں اسے
کون جلتی دھوپ کو صحرا سے گھر لے جائے گا
آسماں کی کھوج میں ہم سے زمیں بھی کھو گئی
کتنی پستی میں مذاق بال و پر لے جائے گا
میں ہی تنہا ہوں یہاں اس کی صلابت کا گواہ
کون اٹھا کر یہ مرا سنگ ہنر لے جائے گا
کاٹ کر دست دعا کو میرے خوش ہو لے مگر
تو کہاں آخر یہ شاخ بے ثمر لے جائے گا
پست رکھو اپنی آوازوں کو ورنہ دور تک
بات گھر کی رخنۂ دیوار و در لے جائے گا
میں اٹھاتا ہوں قدم حالات کی رو کے خلاف
جانتا ہوں وقت کا جھونکا کدھر لے جائے گا
اتنی لمبی بھی نہیں لوگو یہ گمنامی کی عمر
ڈھونڈھ کر مجھ کو شعور معتبر لے جائے گا
کاروبار زندگی تک ہیں یہ ہنگامے فضاؔ
کیا وہ سایہ چھوڑ دے گا جو شجر لے جائے گا
غزل
اور کیا مجھ سے کوئی صاحب نظر لے جائے گا
فضا ابن فیضی