اور کس طرح اسے کوئی قبا دی جائے
ایک تصویر ہی پتھر پہ بنا دی جائے
تاکہ پھر کوئی نہ پرچھائیں کے پیچھے دوڑے
اپنی بستی میں چلو آگ لگا دی جائے
خوب ہے یہ مری مخصوص طبیعت کا علاج
ہر تمنا مری کانٹوں پہ سلا دی جائے
اپنی ہی ذات پہ ہوتا ہے جو سائے کا گماں
تیرگی شب کی کسی طور بڑھا دی جائے
ہم کسی طرح تو امروز کی تلخی سمجھیں
عہد رفتہ کی ہر اک بات بھلا دی جائے
آؤ دیکھیں نہ کوئی اپنا شناسا نکلے
اجنبی چہروں سے یہ گرد ہٹا دی جائے
دیکھنے سے جسے آنکھوں میں اندھیرا چھایا
کس کو اس خواب کی تعبیر بتا دی جائے
جب مقدر ہے شب و روز کی بے کیفی صباؔ
خواب کی طرح ہر اک یاد بھلا دی جائے
غزل
اور کس طرح اسے کوئی قبا دی جائے
صبا جائسی