EN हिंदी
اور کس کا گھر کشادہ ہے کہاں ٹھہرے گی رات | شیح شیری
aur kis ka ghar kushada hai kahan Thahregi raat

غزل

اور کس کا گھر کشادہ ہے کہاں ٹھہرے گی رات

عابد مناوری

;

اور کس کا گھر کشادہ ہے کہاں ٹھہرے گی رات
مجھ کو ہی مہماں نوازی کا شرف بخشے گی رات

نیند آئے گی نہ ان بے خواب آنکھوں میں کبھی
مجھ کو تھپکی دیتے دیتے آپ سو جائے گی رات

شام ہرگز دن کے سینے میں نہ خنجر گھونپتی
یہ اگر معلوم ہوتا خوں بہا مانگے گی رات

آنسوؤں سے تر بہ تر ہو جائے گا آنگن تمام
کرب تنہائی پہ اپنے پھوٹ کر روئے گی رات

چاند تاروں کو چھپا بھی لیں گھنے بادل اگر
جھلملاتے جگنوؤں سے راستہ پوچھے گی رات

اپنے اپنے لطف سے دونوں نوازیں گے مجھے
زخم دل بخشے گا دن اس پر نمک چھڑکے گی رات

سورج اپنے رتھ کو پھر آکاش پر دوڑائے گا
صبح کا تارا نکلتے ہی سمٹ جائے گی رات

جب ترے جوڑے کا گجرا یاد آئے گا مجھے
رات کی رانی کے پھولوں سے مہک اٹھے گی رات

گھر پلٹ کر جاؤں گا رخ پر لیے دن بھر کی دھول
مجھ کو اے عابدؔ بڑی مشکل سے پہچانے گی رات