اور اے چشم طرب بادۂ گلفام ابھی
دل ہے بیگانۂ اندیشۂ انجام ابھی
بادہ و ساقی و مطرب کا نہ لو نام ابھی
گرد آلود ہے آئینۂ ایام ابھی
دل ہے مجروح پر و بال شکستہ ہمدم
دام سے چھوٹ کے بھی ہوں میں تہہ دام ابھی
معنی و مقصد ہستی کا سمجھنا معلوم
عقل ہے صرف پرستارئ اوہام ابھی
عشرت جلوۂ بیباک مبارک اے عشق
دیدہ و دل ہیں مگر تشنۂ پیغام ابھی
غم نہیں سب پہ اگر چشم کرم ہے تیری
غم تو یہ ہے کہ ستم بھی ہے ترا عام ابھی
اے سبک سیر نظر ایک پیام رنگیں
ہے حریف غم دل گردش ایام ابھی
دعوت شوق بعنوان ستم بھی تو نہیں
اس پہ الزام کہ ہے جذبۂ دل خام ابھی
تو نے کیا چیز بنا دی نگہ سحر طراز
وہ جو تھی شیشۂ دل میں مئے بے نام ابھی
زندگی منزل مقصود سے آگاہ نہیں
اس کی معراج ہے پرواز سر بام ابھی
کس کو یہ ہوش کہ پیغام محبت سمجھے
دل ہے وارفتۂ رنگینئ پیغام ابھی
غزل
اور اے چشم طرب بادۂ گلفام ابھی
حبیب احمد صدیقی