اور ابھی تیز دوڑنا ہے مجھے
زندگی دور کی صدا ہے مجھے
ہوں مسلسل سفر میں مثل ہوا
خود سری میری رہنما ہے مجھے
جانے اس کی جدائی کیا ہوگی
جس کا ملنا ہی حادثہ ہے مجھے
وہ بھی یاد آئے گا خدا کے ساتھ
وہ بھی ممنون کر گیا ہے مجھے
ہو چکا ختم دور خوابوں کا
اب حقائق کا سامنا ہے مجھے
وہ کہ جابر ہے خواہشیں معصوم
زیست میدان کربلا ہے مجھے
ختم ہے دل پہ داستاں گوئی
کچھ مسلسل سنا رہا ہے مجھے
غزل
اور ابھی تیز دوڑنا ہے مجھے
روحی کنجاہی