اور اب یہ دل بھی میرا مانتا ہے
وہ میری دسترس سے ماورا ہے
چلو کوئی ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں
ہوا کا زور بڑھتا جا رہا ہے
مرے دل میں ہے صحراؤں کا منظر
مگر آنکھوں سے چشمہ پھوٹتا ہے
صدا کوئی سنائی دے تو کیسے
مرے گھر میں خلا اندر خلا ہے
زمانہ ہٹ چکا پیچھے کبھی کا
اور اب تو صرف اپنا سامنا ہے
میں چپ ہوں اب اسے کیسے بتاؤں
کوئی اندر سے کیسے ٹوٹتا ہے
غزل
اور اب یہ دل بھی میرا مانتا ہے
آصف شفیع