اوقات شیخ گو کہ سجود و قیام ہے
میرے کنے تو ایک خدا ہی کا نام ہے
ہر صبح اٹھ بتوں سے مجھے رام رام ہے
زاہد تری نماز کو میرا سلام ہے
تیری نگہ کے دور میں ایسا ہوا ہوں مست
ساغر سے مجھ کو آنکھ ملانا حرام ہے
ہم اور تیری شکایتیں ظالم خدا سے ڈر
بہتان ہے غلط ہے یہ محض اتہام ہے
دن کو نہ بھوک ہے نہ مجھے رات کو ہے نیند
اس روزگار میں یہ مری صبح و شام ہے
مرتا ہوں آ کے دیکھ ترے انتظار میں
ورنہ سنے گا اب کوئی دم کو تمام ہے
قاصد کہاں چلا ہے مجھے بھی خبر تو دے
یک دم تو بیٹھ جا کہ مجھے تجھ سے کام ہے
تجھ کو قسم خدا کی جو جاتا ہے اس طرف
تو بھولیو نہ اتنا ہی میرا پیام ہے
کہیو مری طرف سے نہ پہنچا مرا جواب
اتنا دماغ کیا ترا حاتمؔ غلام ہے
قاصد سے اس نے سن کے حقیقت کہا کہ واہ
کیا خوب اس سخن کا کوئی یہ مقام ہے
کہنا اسے یہی تو کہ اے بو الہوس ہنوز
عاشق ہوا تو پر یہ ترا عشق خام ہے
معشوق کی جناب میں کوئی بھی بے ادب
بولا ہے اس طرح سے جو تیرا کلام ہے
غزل
اوقات شیخ گو کہ سجود و قیام ہے
شیخ ظہور الدین حاتم