اصنام مال و زر کی پرستش سکھا گئی
دنیا مجھے بھی عابد دنیا بنا گئی
وہ سنگ دل مزار وفا پر بنام عشق
آئی تو میرے نام کا پتھر لگا گئی
میرے لیے ہزار تبسم تھی وہ بہار
جو آنسوؤں کی راہ پہ مجھ کو لگا گئی
گوہر فروش شبنمی پلکوں کی چھاؤں میں
کیا آگ تھی جو روح کے اندر سما گئی
میرے سخن کی داد بھی اس کو ہی دیجئے
وہ جس کی آرزو مجھے شاعر بنا گئی
صہباؔ وہ روشنی جو بہت مہربان تھی
کیوں میرے راستے میں اندھیرے بچھا گئی
غزل
اصنام مال و زر کی پرستش سکھا گئی
صہبا اختر