EN हिंदी
اسیران قفس صحن چمن کو یاد کرتے ہیں | شیح شیری
asiran-e-qafas sehn-e-chaman ko yaad karte hain

غزل

اسیران قفس صحن چمن کو یاد کرتے ہیں

بھارتیندو ہریش چندر

;

اسیران قفس صحن چمن کو یاد کرتے ہیں
بھلا بلبل پہ یوں بھی ظلم اے صیاد کرتے ہیں

کمر کا تیرے جس دم نقش ہم ایجاد کرتے ہیں
تو جاں فرمان آ کر معنی و بہزاد کرتے ہیں

پس مردن تو رہنے دے زمیں پر اے صبا مجھ کو
کہ مٹی خاکساروں کی نہیں برباد کرتے ہیں

دم رفتار آتی ہے صدا پازیب سے تیری
لحد کے خستگاں اٹھو مسیحا یاد کرتے ہیں

قفس میں اب تو اے صیاد اپنا دل تڑپتا ہے
بہار آئی ہے مرغان چمن فریاد کرتے ہیں

بتا دے اے نسیم صبح شاید مر گیا مجنوں
یہ کس کے پھول اٹھتے ہیں جو گل فریاد کرتے ہیں

مثل سچ ہے بشر کی قدر نعمت بعد ہوتی ہے
سنا ہے آج تک ہم کو بہت وہ یاد کرتے ہیں

لگایا باغباں نے زخم کاری دل پہ بلبل کے
گریباں چاک غنچے ہیں تو گل فریاد کرتے ہیں

رساؔ آگے نہ لکھ اب حال اپنی بے قراری کا
برنگ غنچہ لب مضموں ترے فریاد کرتے ہیں