اسیر شام ہیں ڈھلتے دکھائی دیتے ہیں
یہ لوگ نیند میں چلتے دکھائی دیتے ہیں
وہ اک مکان کہ اس میں کوئی نہیں رہتا
مگر چراغ سے جلتے دکھائی دیتے ہیں
یہ کیسا رنگ نظر آیا اس کی آنکھوں میں
کہ سارے رنگ بدلتے دکھائی دیتے ہیں
وہ کون لوگ ہیں جو تشنگی کی شدت سے
کنار آب پگھلتے دکھائی دیتے ہیں
اندھیری رات میں بھی شہر کے دریچوں سے
ہمیں تو چاند نکلتے دکھائی دیتے ہیں
غزل
اسیر شام ہیں ڈھلتے دکھائی دیتے ہیں
صابر وسیم