اسیر خواب نئی جستجو کے در کھولیں
ہوا پہ ہاتھ رکھیں اور اپنے پر کھولیں
سمیٹے اپنے سرابوں میں بارشوں کا جمال
کہاں کا قصد ہے یہ راز خوش نظر کھولیں
اسے بھلانے کی پھر سے کریں نئی سازش
چلو کہ آج کوئی نامۂ دگر کھولیں
الجھتی جاتی ہیں گرہیں ادھورے لفظوں کی
ہم اپنی باتوں کے سارے اگر مگر کھولیں
جو خواب دیکھنا تعبیر کھوجنا ہو کبھی
تو پہلے رات کے لپٹے ہوئے بھنور کھولیں
اک اینٹ سامنے دیوار سے نکالیں اب
چلو کہ پھر سے نیا کوئی درد سر کھولیں
غزل
اسیر خواب نئی جستجو کے در کھولیں
عنبرین صلاح الدین