اسیر حافظہ ہو آج کے جہان میں آؤ
مکالمے کے لئے عصر کی زبان میں آؤ
پئے ثبات تغیر پکارتے ہوئے گزرے
چھتیں شکستہ ہیں نکلو نئے مکان میں آؤ
زمیں کا وقت سے جھگڑا ہے خود نپٹتے رہیں گے
کہا ہے کس نے کہ تم ان کے درمیان میں آؤ
یہ آٹھ پہر کی دنیا تمہیں بتاؤں کہ کیا ہے
نکل کے جسم سے کچھ دیر اپنی جان میں آؤ
تمہیں تمہاری الف دید میں میں دیکھنا چاہوں
نظر بچا کے زمانے سے میرے دھیان میں آؤ
غزل
اسیر حافظہ ہو آج کے جہان میں آؤ
آفتاب اقبال شمیم