اسیر درد ہو کر جی رہا ہوں
کہ اب آنسو نہیں خوں پی رہا ہوں
تری فرقت ستائے گی مجھے کیا
میں خود چاک گریباں سی رہا ہوں
مجھے کیوں آج ٹھکراتی ہے دنیا
کبھی اس کی ضرورت بھی رہا ہوں
مجھے فرصت کہاں ہے دشت غم سے
ہمیشہ آبلہ پا ہی رہا ہوں
غزل
اسیر درد ہو کر جی رہا ہوں
خان رضوان