EN हिंदी
اسیر درد ہو کر جی رہا ہوں | شیح شیری
asir-e-dard ho kar ji raha hun

غزل

اسیر درد ہو کر جی رہا ہوں

خان رضوان

;

اسیر درد ہو کر جی رہا ہوں
کہ اب آنسو نہیں خوں پی رہا ہوں

تری فرقت ستائے گی مجھے کیا
میں خود چاک گریباں سی رہا ہوں

مجھے کیوں آج ٹھکراتی ہے دنیا
کبھی اس کی ضرورت بھی رہا ہوں

مجھے فرصت کہاں ہے دشت غم سے
ہمیشہ آبلہ پا ہی رہا ہوں