EN हिंदी
اشکوں سے دھل کے آئنہ خانہ بدل گیا | شیح شیری
ashkon se dhul ke aaina-KHana badal gaya

غزل

اشکوں سے دھل کے آئنہ خانہ بدل گیا

خالد محمود ذکی

;

اشکوں سے دھل کے آئنہ خانہ بدل گیا
بارش ہوئی تو موسم رفتہ بدل گیا

جب بھی سنبھالا چاند نے برباد شہر کو
دیوار و در وہی رہے نقشہ بدل گیا

اک دشت بے اماں میں سفر کر رہے تھے ہم
سانسیں اکھڑ گئیں کبھی رستہ بدل گیا

اتری نظر سے گرد تو منظر کچھ اور تھا
یوں لگ رہا تھا جیسے وہ چہرہ بدل گیا

ہر بار پہنچے ہم ترے معیار تک مگر
ہر بار تیرا ہم سے تقاضا بدل گیا

پہلے تو انتقام نے شل کر دئیے حواس
پھر جانے کیا ہوا کہ ارادہ بدل گیا

اس بار تیرے حرف تسلی نہ بن سکے
اس بار تیری بات کا لہجہ بدل گیا

کم کم رہا تھا دن کے سمے دل میں تیرا عکس
شب آ گئی تو جیسے یہ شیشہ بدل گیا