اشک ٹپکیں لاکھ ہونٹوں کی ہنسی جاتی نہیں
آزمایا تو ہے غم نے پر خوشی جاتی نہیں
اس کی ہر نعمت پہ نا شکری کیے جاتے ہیں ہم
ذہن میں ایماں ہے دل کی کافری جاتی نہیں
آج کل ماحول میں بھی رام جانے کیا گھلا
اب ہوا کی جانے کیوں آوارگی جاتی نہیں
اک کسک کم ہو گئی تو دوسری آ جائے گی
ان سہاروں کی وجہ سے شاعری جاتی نہیں
نام پر مے کے نہ جانے کیا پلایا ہے مجھے
ہوش میں رہتے ہوئے بھی بے خودی جاتی نہیں
کیا بتائیں ہم کہ صاحب روشنی کے واسطے
گھر جلایا خود جلے ہیں تیرگی جاتی نہیں
بے وفا نے ہر قدم پہ ہم کو دھوکھے تو دئیے
ہم بھی ضدی ہیں غضب کے عاشقی جاتی نہیں
گالیاں دو چار بدلے میں نہ دے پائی کبھی
ہوں میں سادہ دل یا میری بزدلی جاتی نہیں
فخر ہے مجھ کو تو تروناؔ دشمنی پر دوست کی
دشمنی اتنی بڑھی پر دوستی جاتی نہیں
غزل
اشک ٹپکیں لاکھ ہونٹوں کی ہنسی جاتی نہیں
ترونا مشرا