EN हिंदी
اشک پر زور کچھ چلا ہی نہیں | شیح شیری
ashk par zor kuchh chala hi nahin

غزل

اشک پر زور کچھ چلا ہی نہیں

ڈاکٹر اعظم

;

اشک پر زور کچھ چلا ہی نہیں
میں نے روکا بہت رکا ہی نہیں

آتش زیر پا سبب ورنہ
خاک صحرا کی چھانتا ہی نہیں

یا تو سب کا خدا ہی سچا ہے
یا تو سچا کوئی خدا ہی نہیں

ذہن کہتا ہے سر جھکا لے تو
دل مگر ہے کہ مانتا ہی نہیں

بال و پر ہوں قوی تو کیا حاصل
جب اڑانوں کا حوصلہ ہی نہیں

ہائے میں نے پس غلط فہمی
وہ سنا میں نے جو کہا ہی نہیں

موت کا ڈر اسے دکھائیں کیا
زندہ رہنا جو چاہتا ہی نہیں

صرف احساس کمتری ہے تجھے
اور تو ہے کہ مانتا ہی نہیں

میں ہی میں بزم میں رہا موجود
اور میں بزم میں گیا ہی نہیں

میری غیبت میں وہ بھی ہیں شامل
آج تک جن سے میں ملا ہی نہیں

جو کہ پہچان ہو مری اعظمؔ
شعر ایسا کوئی ہوا ہی نہیں