اشک پر گداز دل حاشیہ چڑھاتا ہے
اک ذرا سے قصہ کو داستاں بناتا ہے
ہاں وہ کافر نعمت کور ذوق ہے یارو
جو غم محبت کو حادثہ بتاتا ہے
جیتے جی کا رشتہ ہے روح و جسم کا رشتہ
دھوپ کے تعاقب میں سایہ مات کھاتا ہے
جب زبان بندی ہو نظریں کام کرتی ہیں
اک پیام آتا ہے اک پیام جاتا ہے
پتھروں کے سینے میں آئنہ بھی ہیرے بھی
ظلمتوں کا خالق ہی مہر و مہ اگاتا ہے
کیوں جوار منزل میں سست گام ہیں راہی
قرب کا یقیں شاید فاصلہ بڑھاتا ہے
اے عروجؔ یہ دنیا قدر درد کیا جانے
کیوں زمانہ سازوں کو حال دل سناتا ہے
غزل
اشک پر گداز دل حاشیہ چڑھاتا ہے
عروج زیدی بدایونی