اشک کو دریا بنایا آنکھ کو ساحل کیا
میں نے مشکل وقت کو کچھ اور بھی مشکل کیا
ایک مایوسی ہی دل میں کب تلک رہتی مرے
میں نے مایوسی میں دل کا خوف بھی شامل کیا
نیند کی امداد جیسے ہی بہم پہنچی مجھے
آنکھ کے مقتل میں اپنے خواب کو داخل کیا
ورنہ تیرا چھوڑ جانا جان لے جاتا مری
کرب میں آنسو ملا کر درد کو زائل کیا
جیسے دنیا دیکھتی ہے ویسے کب تک دیکھتے
دیدۂ بینا سے دیکھیں خود کو اس قابل کیا
ایک چہرہ اور دو آنکھیں لے گئے بازار میں
گروی رکھ کے ان کو پھر اک آئنہ حاصل کیا
ورنہ وہ کب بات سنتا تھا کسی کی بزم میں
میں نے اپنے شعر سے اس شخص کو قائل کیا
بے نیازی سے گزارے عمر کے بتیس سال
کھو دیا کب جانے تجھ کو کب تجھے حاصل کیا
رات دن الٹا لٹک کر ذات کے کنویں میں زیبؔ
سوچ کی ناپختگی کو مشق سے کامل کیا
غزل
اشک کو دریا بنایا آنکھ کو ساحل کیا
اورنگ زیب