اشک ان سیپیوں میں بھر جائیں
تو وہاں ڈوبنے گہر جائیں
خامشی اب تری وضاحت کو
تیرے منبر سے ہم اتر جائیں
دشت سب کے لیے نہیں وحشت
کچھ طلب گار اپنے گھر جائیں
راستے میرے پاس بیٹھ رہیں
فاصلے دور سے گزر جائیں
تتلیاں رنگ جھاڑ لیں اپنے
پھر ترے ہونٹ پر اتر جائیں
ہم بھی دریا کے نا دہندہ ہیں
کشتیاں چھوڑ کر کدھر جائیں
رائیگانی پہ فاتحہ کہنے
ہم سہولت کی قبر پر جائیں
زعم شوریدگی کے مارے ہوئے
لفظ آواز پر اتر جائیں
آج بس خال و خد اٹھائے چلیں
خواہشیں آئنوں میں دھر جائیں
تو کوئی مضحکہ نہیں ہے کہ ہم
دسترس میں خدا کی مر جائیں
نارسائی کی چاہ میں آرشؔ
آبلہ پا مرے سفر جائیں
غزل
اشک ان سیپیوں میں بھر جائیں
سرفراز آرش