EN हिंदी
اشک حسرت میں کیوں لہو ہے ابھی | شیح شیری
ashk-e-hasrat mein kyun lahu hai abhi

غزل

اشک حسرت میں کیوں لہو ہے ابھی

سراج لکھنوی

;

اشک حسرت میں کیوں لہو ہے ابھی
صلح کی ان سے گفتگو ہے ابھی

دل پشیمان جستجو ہے ابھی
کھوئی کھوئی سی آرزو ہے ابھی

چاک دل پر نہ کیوں ہنسی آئے
یہ تو شائستۂ رفو ہے ابھی

مسکرا لیں حقیقتیں مجھ پر
نقش باطل کی جستجو ہے ابھی

جلوے بیتاب اور نظر بے چین
نام دونوں کا جستجو ہے ابھی

خیریت دل کی پوچھنے والے
چین سے تیری آرزو ہے ابھی

کیسے پھاندے گا باغ کی دیوار
تو گرفتار رنگ و بو ہے ابھی

دم گھٹا جاتا ہے محبت کا
بند ہی بند گفتگو ہے ابھی

سیکڑوں آئنہ بدل ڈالے
اپنی ہی شکل روبرو ہے ابھی

گل ہیں آتش کدے خودی کے سراجؔ
سرد انسان کا لہو ہے ابھی