اشک گل رنگ نثار غم جانانہ کریں
آج تیری ہی خوشی اے دل دیوانہ کریں
درد مندوں سے یہ کہہ دو کہ با آئین نیاز
دل کو ذوق کرم یار سے بیگانہ کریں
تاکہ آسودۂ حرماں دل غم کوش نہ ہو
دو گھڑی ذکر مے و ساقی و پیمانہ کریں
بوئے خوش تیری نہیں جن کے مشام جاں میں
رنگ و نکہت کا گلوں کو وہی پیمانہ کریں
کعبہ و دیر و کلیسا کی فضاؤں سے الگ
آؤ تعمیر محبت کا جلو خانہ کریں
اتنی فرصت ہی کہاں ہے کہ ترے سوختہ جاں
جلنے مرنے میں ہم آہنگیٔ پروانہ کریں
اپنی ہستی کی فقط اتنی ہے روداد اثرؔ
جیسے منسوب حقیقت سے اک افسانہ کریں
غزل
اشک گل رنگ نثار غم جانانہ کریں
اثر لکھنوی