اشک غم آنکھ سے باہر بھی نہیں آنے کا
ابر چھٹ جائیں وہ منظر بھی نہیں آنے کا
اب کے آغاز سفر سوچ سمجھ کے کرنا
دشت ملنے کا نہیں گھر بھی نہیں آنے کا
ہائے کیا ہم نے تڑپنے کا صلہ پایا ہے
ایسا آرام جو آ کر بھی نہیں آنے کا
عہد غالبؔ سے زیادہ ہے مرے عہد کا کرب
اب تو کوزے میں سمندر بھی نہیں آنے کا
سبزہ دیوار پہ اگ آیا ظفرؔ خوش ہو لو
آگے آنکھوں میں یہ منظر بھی نہیں آنے کا
غزل
اشک غم آنکھ سے باہر بھی نہیں آنے کا
ظفر گورکھپوری