اشک باری کا مری آنکھوں نے یہ باندھا ہے جھاڑ
ڈوبتے دکھلائی دیں ہیں تا کمر سارے پہاڑ
غیر کو تو نے اشارت کی چرا کر ہم سے آنکھ
ہم بھی اک عیار ہیں پیارے گئے فی الفور تاڑ
مجھ کو کیا بے خود کیا ساقی کی چشم مست نے
اک نگاہ تند سے اس نے صفیں ڈالیں پچھاڑ
ان کو پھر شور قیامت بھی اٹھا سکتا نہیں
مرد راہ عشق میں جو بیٹھتے ہیں پاؤں گاڑ
ہم تو مایوس رہائی اس برس ہیں ہم صفیر
بال و پر صیاد نے ڈالے قفس میں سب اکھاڑ
جب تلک دل میں نہ ہو اک شخص کی الفت کو راہ
کھولنا بے فائدہ ہے دیکھ اسے گھر کے کواڑ
وہ جو لیلیٰ ہے مرے دل میں سنے اس کا جو شور
قیس نکلے گور سے باہر کفن کو چیر پھاڑ
شیخ مے خانہ کی مت چل راہ مے خواروں سے ڈر
مل کے دو بد مست دیں گے آپ کی سج واں بگاڑ
یاں نفس میں کرتے ہیں اپنی پر افشانی کی سیر
فارغ البال اب ہیں گل چینی سے ہم دامن کو جھاڑ
پردۂ مینا میں رکھتی ہے سبھوں سے تاک جھانک
دختر رز سے نہیں دیکھی کوئی گجھی کھلاڑ
سوکھ کر ہر استخواں جوں نے ہے اس کے عشق میں
سچ ہے جو مطرب پسر کا اٹھتا ہے سینے میں ہاڑ
چاندنی میں جب وہ نو خط نیمچہ لے ہاتھ میں
ماہ اس کو دیکھ لینے کی سپر لے منہ پہ آڑ
اپنے رہنے کو جو تو چاہے سو کر ان میں پسند
دو مکاں دنیا میں ہیں آباد اک اور اک اجاڑ
میکدے میں مست ہیں اور شور ان کا ہاؤ ہو
مدرسے میں شیخ ہیں اور وائے ویلا توبہ دہاڑ
شکل مہ اس مہروش بن اپنی نظروں میں محبؔ
ہے یہ کچھ پر دود جوں جھکتا ہے بھڑبھونجے کا بھاڑ
غزل
اشک باری کا مری آنکھوں نے یہ باندھا ہے جھاڑ
ولی اللہ محب