اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا
اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا
موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا
تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا
آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا
زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے
اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا
کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ
دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا
غزل
اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
محسن نقوی