اشک آنکھوں سے پیا بھی نہ بہایا ہم نے
آگ کو دل میں کچھ اس طرح چھپایا ہم نے
وہ کبھی اپنے ہوئے اور نہ وہ غیر ہوئے
ان کو کھویا بھی نہیں اور نہ پایا ہم نے
دل تو پہلے ہی سے زخمی ہے دکھی اور نہ کر
اے زمانے ترا ہر بار اٹھایا ہم نے
ہم سے ملتے ہیں وہی دشمن جانی کی طرح
جس کسی کو بھی یہاں اپنا بنایا ہم نے
سر جھکائے رہے اس واسطے ہر اک لمحہ
اے خدا تجھ کو ہر اک ذرہ میں پایا ہم نے
حادثہ کیا تھا کرنؔ کچھ نہ سمجھ میں آیا
عمر بھر کس کے لئے خود کو گنوایا ہم نے

غزل
اشک آنکھوں سے پیا بھی نہ بہایا ہم نے
کویتا کرن