اشک آنکھوں میں چھپا لیتا ہوں میں
غم چھپانے کے لیے ہنستا ہوں میں
شرم آتی تھی کبھی تجھ سے مجھے
زندگی اب خود سے شرمندہ ہوں میں
مدتوں سے آئینہ دیکھا نہیں
کوئی بتلائے مجھے کیسا ہوں میں
غم خوشی وحشت پریشانی سکوں
سیکڑوں چہروں کا اک چہرہ ہوں میں
ہے مجھی میں ہم نفس میرا کوئی
سانس وہ لیتا ہے اور زندہ ہوں میں
اتنے کھائے ہیں سرابوں سے فریب
سامنے دریا ہے اور پیاسا ہوں میں
یاد آیا ہے مجھے اک ہم سفر
جب کبھی اس راہ سے گزرا ہوں میں
چار جانب ایک سناٹا سکوت
غالباً بستی میں اب تنہا ہوں میں
مجھ کو چھونے کا نہ کر ارماں شجرؔ
تو مجھے محسوس کر کیسا ہوں میں
غزل
اشک آنکھوں میں چھپا لیتا ہوں میں
سریندر شجر