اشک آنکھوں میں بھرے بیٹھے ہو
کتنے بزدل ہو ڈرے بیٹھے ہو
تم کو مر کر بھی کہاں مرنا تھا
زندگی میں ہی مرے بیٹھے ہو
کفر بیتاب ہے بیعت کے لیے
اور تم ہو کہ پرے بیٹھے ہو
معرکے یوں کہیں سر ہوتے ہیں
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو
جو تھے کھوٹے وہ سبھی چل نکلے
اور تم ہو کے کھرے بیٹھے ہو
آ گیا کون تمہیں یاد اخلاقؔ
اس قدر غم سے بھرے بیٹھے ہو
غزل
اشک آنکھوں میں بھرے بیٹھے ہو
اخلاق بندوی