اشک آنکھوں میں اور دل میں آہوں کے شرر دیکھے
برسات کے موسم میں جلتے ہوئے گھر دیکھے
آخر کو یہ دن تو نے اے دیدۂ تر دیکھے
ملتے ہوئے مٹی میں انمول گہر دیکھے
جلووں کی حدیں آخر کیسے متعین ہوں
آنکھوں نے ترے جلوے تا حد نظر دیکھے
گہنائے ہوئے چاند اور دھندلائے ہوئے سورج
فرقت میں ان آنکھوں نے کیا شام و سحر دیکھے
پہنچا دے سلام اس تک ہم تیرہ نصیبوں کا
جو راہیٔؔ خوش قسمت تنویر سحر دیکھے

غزل
اشک آنکھوں میں اور دل میں آہوں کے شرر دیکھے
راہی شہابی