اشک آنکھوں کے اندر نہ رہا ہے نہ رہے گا
یہ طفل ہے ابتر نہ رہا ہے نہ رہے گا
منعم نہ ہو مغرور سدا پاس کسو کے
سیم و زر و گوہر نہ رہا ہے نہ رہے گا
گر عیش میسر ہو تو کر لیجے کم و بیش
سب وقت برابر نہ رہا ہے نہ رہے گا
آنکھوں سے اسی طرح اگر سیل رواں ہے
دنیا میں کوئی گھر نہ رہا ہے نہ رہے گا
جب دختر رز لے کے حضورؔ آ گیا ساقی
پھر زہد برادر نہ رہا ہے نہ رہے گا
غزل
اشک آنکھوں کے اندر نہ رہا ہے نہ رہے گا
غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی