EN हिंदी
اشک آنکھوں کے اندر نہ رہا ہے نہ رہے گا | شیح شیری
ashk aankhon ke andar na raha hai na rahega

غزل

اشک آنکھوں کے اندر نہ رہا ہے نہ رہے گا

غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی

;

اشک آنکھوں کے اندر نہ رہا ہے نہ رہے گا
یہ طفل ہے ابتر نہ رہا ہے نہ رہے گا

منعم نہ ہو مغرور سدا پاس کسو کے
سیم و زر و گوہر نہ رہا ہے نہ رہے گا

گر عیش میسر ہو تو کر لیجے کم و بیش
سب وقت برابر نہ رہا ہے نہ رہے گا

آنکھوں سے اسی طرح اگر سیل رواں ہے
دنیا میں کوئی گھر نہ رہا ہے نہ رہے گا

جب دختر رز لے کے حضورؔ آ گیا ساقی
پھر زہد برادر نہ رہا ہے نہ رہے گا