EN हिंदी
اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے | شیح شیری
ashk aankh mein phir aTak raha hai

غزل

اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے

پروین شاکر

;

اشک آنکھ میں پھر اٹک رہا ہے
کنکر سا کوئی کھٹک رہا ہے

میں اس کے خیال سے گریزاں
وہ میری صدا جھٹک رہا ہے

تحریر اسی کی ہے مگر دل
خط پڑھتے ہوئے اٹک رہا ہے

ہیں فون پہ کس کے ساتھ باتیں
اور ذہن کہاں بھٹک رہا ہے

صدیوں سے سفر میں ہے سمندر
ساحل پہ تھکن ٹپک رہا ہے

اک چاند صلیب شاخ گل پر
بالی کی طرح لٹک رہا ہے