اشعار رنگ روپ سے محروم کیا ہوئے
الفاظ نے پہن لیے معنی نئے نئے
بوندیں پڑی تھیں چھت پہ کہ سب لوگ اٹھ گئے
قدرت کے آدمی سے عجب سلسلے رہے
وہ شخص کیا ہوا جو مقابل تھا سوچئے
بس اتنا کہہ کے آئینے خاموش ہو گئے
اس آس پہ کہ خود سے ملاقات ہو کبھی
اپنے ہی در پر آپ ہی دستک دیا کئے
پتے اڑا کے لے گئی اندھی ہوا کہیں
اشجار بے لباس زمیں میں گڑے ہوئے
کیا بات تھی کہ ساری فضا بولنے لگی
کچھ بات تھی کہ دیر تلک سوچتے رہے
ہر سنسناتی شے پہ تھی چادر دھوئیں کی رازؔ
آکاش میں شفق تھی نہ پانی پہ دائرے
غزل
اشعار رنگ روپ سے محروم کیا ہوئے
راج نرائن راز