EN हिंदी
اسباب یہی ہے یہی سامان ہمارا | شیح شیری
asbab yahi hai yahi saman hamara

غزل

اسباب یہی ہے یہی سامان ہمارا

اقبال پیام

;

اسباب یہی ہے یہی سامان ہمارا
چڑیوں سے مہکتا رہے دالان ہمارا

ہر شخص کو خوشحالی کی دیتے ہیں دعائیں
ہر شخص ہی کر جاتا ہے نقصان ہمارا

ہر شخص ہی کیوں اس کو مٹانے پہ تلا ہے
دیواروں پہ لکھا ہوا پیمان ہمارا

پیتے ہیں فقط ساتھ نبھانے کے لیے ہم
ہر شام کو غم ہوتا ہے مہمان ہمارا

رہنا ہے کسی اور کے قبضے میں ہمیشہ
بھر سکتا نہیں کوئی بھی تاوان ہمارا

اس بات کا دکھ ہے کہ اشارہ نہیں کاٹا
ہر موڑ پہ ہوتا رہا چالان ہمارا

ہر روز پڑے ہوتے ہیں سب پھول زمیں پر
یہ کون گرا دیتا ہے گلدان ہمارا