اسباب ہست رہ میں لٹانا پڑا مجھے
پھر خالی ہاتھ دہر سے جانا پڑا مجھے
سب لوگ تیرے شہر کے ماضی پرست تھے
مشکل سے حال میں انہیں لانا پڑا مجھے
پہلے بنائے آنکھ میں خوابوں کے مقبرے
پھر حسرتوں کو دل میں دبانا پڑا مجھے
مجھ کو تو خیر خانہ بدوشی ہی راس تھی
تیرے لیے مکان بنانا پڑا مجھے
کچھ اور جب رہا نہ ذریعہ معاش کا
کاندھوں پہ بار عشق اٹھانا پڑا مجھے
دنیا یہ گھومتی رہے پرکار کی طرح
اک دائرہ زمیں پہ بنانا پڑا مجھے
اک دن یہ جی میں آئی وہ آنکھیں ہی پھوڑ دوں
جن کے لیے عذاب اٹھانا پڑا مجھے
اپنے معاملے میں ہی شدت پسند تھی
اپنے لیے ہی جان سے جانا پڑا مجھے
غزل
اسباب ہست رہ میں لٹانا پڑا مجھے
سدرہ سحر عمران