اثر میں دیکھیے اب کون کم نکلتا ہے
ادھر سے تیغ ادھر سے قلم نکلتا ہے
فراق میں تو نکلتی تھی جان ویسے بھی
پر آج وصل میں حیرت سے دم نکلتا ہے
کھڑا ہوا ہے عدو کا معاملہ ایسے
بیان کیجے تو پہلوئے دم نکلتا ہے
میں روز جس کے تغافل کا رونا روتا ہوں
وہ شخص غور سے دیکھے تو دم نکلتا ہے
جو دام ملتے ہیں بیچو متاع فن کو شجاعؔ
یہ مال ان دنوں ویسے بھی کم نکلتا ہے
غزل
اثر میں دیکھیے اب کون کم نکلتا ہے
شجاع خاور