اثرؔ کیجئے کیا کدھر جائیے
مگر آپ ہی سے گزر جائیے
کبھو دوستی ہے کبھو دشمنی
تری کون سی بات پر جائیے
مرا دل مرے ہاتھ سے لیجئے اور
ستم ہے مجھی سے مکر جائیے
کَے روز کی زندگانی ہے یاں
بنے جس طرح زیست کر جائیے
اثرؔ ان سلوکوں پہ کیا لطف ہے
پھر اس بے مروت کے گھر جائیے

غزل
اثرؔ کیجئے کیا کدھر جائیے
میر اثر