EN हिंदी
عرض مدعا کرتے کیوں نہیں کیا ہم نے | شیح شیری
arz-e-muddaa karte kyun nahin kiya humne

غزل

عرض مدعا کرتے کیوں نہیں کیا ہم نے

عمیق حنفی

;

عرض مدعا کرتے کیوں نہیں کیا ہم نے
خواہشوں کو حسرت میں خود بدل دیا ہم نے

نت نئی امیدوں کے ٹانک ٹانک کر پیوند
زندگی کے دامن کو عمر بھر سیا ہم نے

رنج و غم اٹھائے ہیں فکر و فن بھی پائے ہیں
زندگی کو جتنا بھی جی سکے جیا ہم نے

صبح کا نیا سورج کچھ تو روشنی لے گا
شام سے جلایا ہے آس کا دیا ہم نے

داغ دل کی زرداری مفت ہاتھ کب آئی
خاک ہو کے پایا ہے راز کیمیا ہم نے