EN हिंदी
عرش تک جو بے خطا جاتا ہے یہ وہ تیر ہے | شیح شیری
arsh tak jo be-KHata jata hai ye wo tir hai

غزل

عرش تک جو بے خطا جاتا ہے یہ وہ تیر ہے

محمد علی جوہرؔ

;

عرش تک جو بے خطا جاتا ہے یہ وہ تیر ہے
غیر سمجھا ہے کہ میری آہ بے تاثیر ہے

خوگر قید وفا پر کھل چکا زنداں کا راز
جرم تھی وہ قید یہ اس جرم کی تعزیر ہے

بے گناہی سے بھی بڑھ کر ہے اگر کوئی گناہ
تو سزائے عشق پا کر خجلت تقصیر ہے

چھوڑ میری فکر غافل رو خود اپنی قید پر
جس کو تو زیور سمجھتا ہے وہی زنجیر ہے

سجن و جنت دونوں اے کافر ہیں اس دنیا کے نام
وہ ازل سے بخت مومن یہ تری تقدیر ہے

دار ہی بنتی ہے اے دل زینۂ معراج عشق
خواب آغاز محبت کی یہی تعبیر ہے

ہو نہ الجھن جب جنون جامہ ور کامل نہ ہو
جب تلک دامن ہے خار دشت دامن گیر ہے

ہاتھ تو ہوں گے قلم پر نامہ بر یہ بھی کہا
دل چرا لیتی ہے پہلو سے یہ وہ تحریر ہے

پائیداری میں ہے قصروں سے سوا کچی سی قبر
جو قیامت تک رہے قائم یہ وہ تعمیر ہے

خون ناحق کا کسی کے شبہ اور تم پر مگر
سینۂ جوہرؔ میں دیکھو تو یہ کس کا تیر ہے