عرش تک جو بے خطا جاتا ہے یہ وہ تیر ہے
غیر سمجھا ہے کہ میری آہ بے تاثیر ہے
خوگر قید وفا پر کھل چکا زنداں کا راز
جرم تھی وہ قید یہ اس جرم کی تعزیر ہے
بے گناہی سے بھی بڑھ کر ہے اگر کوئی گناہ
تو سزائے عشق پا کر خجلت تقصیر ہے
چھوڑ میری فکر غافل رو خود اپنی قید پر
جس کو تو زیور سمجھتا ہے وہی زنجیر ہے
سجن و جنت دونوں اے کافر ہیں اس دنیا کے نام
وہ ازل سے بخت مومن یہ تری تقدیر ہے
دار ہی بنتی ہے اے دل زینۂ معراج عشق
خواب آغاز محبت کی یہی تعبیر ہے
ہو نہ الجھن جب جنون جامہ ور کامل نہ ہو
جب تلک دامن ہے خار دشت دامن گیر ہے
ہاتھ تو ہوں گے قلم پر نامہ بر یہ بھی کہا
دل چرا لیتی ہے پہلو سے یہ وہ تحریر ہے
پائیداری میں ہے قصروں سے سوا کچی سی قبر
جو قیامت تک رہے قائم یہ وہ تعمیر ہے
خون ناحق کا کسی کے شبہ اور تم پر مگر
سینۂ جوہرؔ میں دیکھو تو یہ کس کا تیر ہے
غزل
عرش تک جو بے خطا جاتا ہے یہ وہ تیر ہے
محمد علی جوہرؔ