EN हिंदी
ارماں کو چھپانے سے مصیبت میں ہے جاں اور | شیح شیری
arman ko chhupane se musibat mein hai jaan aur

غزل

ارماں کو چھپانے سے مصیبت میں ہے جاں اور

آنند نرائن ملا

;

ارماں کو چھپانے سے مصیبت میں ہے جاں اور
شعلہ کو دباتے ہیں تو اٹھتا ہے دھواں اور

انکار کیے جاؤ اسی طور سے ہاں اور
ہونٹوں پہ ہے کچھ اور نگاہوں سے عیاں اور

خود تو نے بڑھائی ہے یہ تفریق جہاں اور
تو ایک مگر روپ یہاں اور وہاں اور

دل میں کوئی غنچہ کبھی کھلتے نہیں دیکھا
اس باغ میں کیا آ کے بنا لے گی خزاں اور

اتنا بھی مرے عہد وفا پر نہ کرو شک
ہاں ہاں میں سمجھتا ہوں کہ ہے رسم جہاں اور

ہر لب پہ ترا نام ہے اک میں ہوں کہ چپ ہوں
دنیا کی زباں اور ہے عاشق کی زباں اور

اب کوئی صدا میری صدا پر نہیں دیتا
آواز طرب اور تھی آواز فغاں اور

کچھ دور پہ ملتی ہیں حدیں ارض و سما کی
صحرائے طلب میں نہیں منزل کا نشاں اور

اک آہ اور اک اشک پہ ہے قصۂ دل ختم
رکھتی نہیں الفاظ محبت کی زباں اور

وہ صبح کے تارے کی جھپکنے سی لگی آنکھ
کچھ دیر ذرا دیدۂ انجم نگراں اور

ملاؔ وہی تم اور وہی کوئے حسیناں
جیسے کبھی دنیا میں نہ تھا کوئی جواں اور