عقل کی جان پر بن آئی ہے
عشق سے زور آزمائی ہے
حسن زا ہے جمال کا پندار
حسن پندار خود نمائی ہے
لاجونتی کو ہے گمان نظر
ہم نے دیکھا نہیں لجائی ہے
جنس دل کا نہ تھا کوئی گاہک
آپ نے کس لیے چرائی ہے
ہاتھ یا رب دعا میں پھیلانا
قطع احساس نارسائی ہے
قہر سے اخذ بھاپ کی طاقت
حسن سے وصف کہربائی ہے
ڈھونڈھتی ہیں وہ منفعل نظریں
داد محفل سے اٹھ کے پائی ہے
عشق کیا جرم ہے کہ اخفا کو
آپ نے مشکل یہ بنائی ہے
کہہ رہی ہے حکایت تیمور
لنگ عذر شکستہ پائی ہے
ہے ہمارے لیے خدا کافی
آپ کے واسطے خدائی ہے
خلق کے حسن خلق سے بہتر
آپ کی وضع کج ادائی ہے
غزل
عقل کی جان پر بن آئی ہے
سید حامد