عقل حیران ہے رحمت کا تقاضا کیا ہے
دل کو تقصیر کی ترغیب تماشا کیا ہے
انہیں جب غور سے دیکھا تو نہ دیکھا ان کو
مقصد اس پردے کا اک دیدۂ بینا کیا ہے
ہم شہادت کا جنوں سر میں لیے پھرتے ہیں
ہم مجاہد ہیں ہمیں موت کا کھٹکا کیا ہے
اڑتا پھرتا ہوں میں صحرا میں بگولے کی طرح
کچھ نہیں علم مرا ملجا و ماویٰ کیا ہے
میرا منشا ہے کہ دنیا سے کنارا کر لوں
اے غم دوست بتا تیرا ارادہ کیا ہے
بات پر پیچ ہنسی لب پہ شکن ماتھے پر
دل سمجھنے سے ہے قاصر یہ معمہ کیا ہے
جو تری زلف پہ جا کر نہ کھلے پھول وہ کیا
جو نہ الجھے ترے دامن سے وہ کانٹا کیا ہے
ایک کھلتا ہوا گلشن ہے تمہارا پیکر
تم تبسم ہی تبسم ہو تمہارا کیا ہے
میں نے اک بات جو پوچھی تو بگڑ کر بولے
بد گمانی کے سوا آپ نے سیکھا کیا ہے
وہ فقیروں کو نوازیں نہ نوازیں اے چرخؔ
ہم دعا دے کے چلے آئیں گے اپنا کیا ہے
غزل
عقل حیران ہے رحمت کا تقاضا کیا ہے
چرخ چنیوٹی