EN हिंदी
اپنوں کے ستم یاد نہ غیروں کی جفا یاد | شیح شیری
apnon ke sitam yaad na ghairon ki jafa yaad

غزل

اپنوں کے ستم یاد نہ غیروں کی جفا یاد

دوارکا داس شعلہ

;

اپنوں کے ستم یاد نہ غیروں کی جفا یاد
وہ ہنس کے ذرا بولے تو کچھ بھی نہ رہا یاد

کیا لطف اٹھائے گا جہان گزراں کا
وہ شخص کہ جس شخص کو رہتی ہو قضا یاد

ہم کاگ اڑا دیتے ہیں بوتل کا اسی وقت
گرمی میں بھی آ جاتی ہے جب کالی گھٹا یاد

محشر میں بھی ہم تیری شکایت نہ کریں گے
آ جائے گی اس دن بھی ہمیں شرط وفا یاد

پی لی تو خدا ایک تماشا نظر آیا
آیا بھی تو آیا ہمیں کس وقت خدا یاد

اللہ ترا شکر کہ امید کرم ہے
اللہ ترا شکر کہ اس نے بھی کیا یاد

کل تک ترے باعث میں اسے بھولا ہوا تھا
کیوں آنے لگا پھر سے مجھے آج خدا یاد