اپنوں کے کرم سے یا قضا سے
مر جائیں تو آپ کی بلا سے
گرتی رہی روز روز شبنم
مرتے رہے روز روز پیاسے
اے رہ زدگاں کہیں تو پہنچے
منہ موڑ گئے جو رہنما سے
پھر نیند اڑا کے جا رہے ہیں
تاروں کے یہ قافلے ندا سے
مڑ مڑ کے وہ دیکھنا کسی کا
نظروں میں وہ دور کے دلاسے
پلکوں کی ذرا ذرا سی لرزش
پیغام ترے ذرا ذرا سے
داتا ہیں سبھی نظر کے آگے
کیا مانگیں چھپے ہوئے خدا سے
کیا ہاتھ اٹھائیے دعا کو
ہم ہاتھ اٹھا چکے دعا سے

غزل
اپنوں کے کرم سے یا قضا سے
عزیز قیسی