اپنی تو محبت کی اتنی سی کہانی ہے
ٹوٹی ہوئی کشتی ہے ٹھہرا ہوا پانی ہے
اک پھول کتابوں میں دم توڑ گیا لیکن
کچھ یاد نہیں آتا یہ کس کی نشانی ہے
بکھرے ہوئے پنوں سے یادیں سی جھلکتی ہیں
کچھ تیری کہانی ہے کچھ میری کہانی ہے
ساون کی بہاروں میں نغمہ ہیں نہ جھولے ہیں
آکاش کی آنکھوں میں روتا ہوا پانی ہے
چہروں کی کتابوں میں الفاظ نہیں ہوتے
ہر ایک شکن خود میں اک پوری کہانی ہے
چہروں سے تو لگتا ہے سب بھول کے بیٹھے ہیں
ہم صرف مسافر ہیں اک رات بتانی ہے
مانا کہ انہیں اک ہی جھونکے نے گرایا ہے
ہر ٹوٹتے پتے کی اپنی ہی کہانی ہے

غزل
اپنی تو محبت کی اتنی سی کہانی ہے
مصور فیروزپوری