اپنی طلب کا نام ڈبونے کیوں جائیں مے خانے تک
تشنہ لبی کا اک دریا ہے شیشے سے پیمانے تک
حسن و عشق کا سوز تعلق سمتوں کا پابند نہیں
اکثر تو خود شمع کا شعلہ بڑھ کے گیا پروانے تک
راہ طلب کے پیچ و خم کا اندازہ آسان نہیں
اہل خرد کیا چیز ہیں رستہ بھول گئے دیوانے تک
ساقی کو یہ خوش فہمی تھی ہم تک موج نہ آئے گی
پیاس کا جب پیمانہ چھلکا ڈوب گئے مے خانے تک
مٹی سے جب پھول کھلائے کار جنوں کی محنت نے
شہر کچھ اس انداز سے پھیلے جا پہنچے ویرانے تک
زخم ہنر کا رنگ سلامت سب کو خبر ہو جائے گی
کتنے چہرے ہم نے تراشے ہاتھ قلم ہو جانے تک
اس غربت کی دھوپ میں شاعرؔ اپنوں کا سایہ بھی نہ تھا
جس غربت کی دھوپ میں ہم کو یاد آئے بیگانے تک
غزل
اپنی طلب کا نام ڈبونے کیوں جائیں مے خانے تک
شاعر لکھنوی