اپنی پلکوں سے اس کے اشارے اٹھا
اس کی انگلیوں سے اشارے اٹھا
ایسا لگتا ہے دہرا رہا ہوں میں کچھ
زندگی کے پرانے شمارے اٹھا
روشنی کا وہ کیسا عجب شور تھا
اس کنارے ہوا اس کنارے اٹھا
آخری ہے سفر وہ سبک سر چلے
اس کے دامن سے اپنے ستارے اٹھا
آنکھ کی اس بدن پر لکیریں کھنچیں
ہر غزل سے نئے استعارے اٹھا
گفتگو منظروں کی طرح کھل کے ہو
اب نہ تشبیہ اور استعارے اٹھا
تیرا مقصد ہے کیا میں سمجھ جاؤں گا
کوئی موسم ہی کی بات پیارے اٹھا
رنگ سے رنگ ملنے نہ پائے کہیں
ایک ایک کر کے سارے نظارے اٹھا
جھیل پتوار واپس نہ دے گی کبھی
اپنی کشتی اب اپنے سہارے اٹھا
آگ کے اک قلم کی سیاہی لگا
جو دھواں نورؔ گنگا کنارے اٹھا
غزل
اپنی پلکوں سے اس کے اشارے اٹھا
کرشن بہاری نور