اپنی پلکوں سے جو ٹوٹے ہیں گہر دیکھتے ہیں
ہم دعا مانگتے ہیں اور اثر دیکھتے ہیں
کوئی برسا ہوا بادل بھی جو گزرا ہے تو ہم
ڈر کے بارش میں ٹپکتا ہوا گھر دیکھتے ہیں
سیر کیسی یہاں تہذیب کی زنجیر بھی ہے
ہم تو بس روزن دیوار سے در دیکھتے ہیں
صرف خوابوں کا جہاں ہم نے سجایا ورنہ
لوگ تو جی میں جو آ جائے وہ کر دیکھتے ہیں
داغ دل دیدۂ تر وحشت جاں تنہائی
ان کو کیا وہ تو فقط عرض ہنر دیکھتے ہیں
ایک وہ منزلیں بڑھ کر جنہیں لینے آئیں
ایک ہم راہ میں جو گرد سفر دیکھتے ہیں
دل بجھا جاتا ہو جب رات کی تاریکی میں
دیکھنے والے تب آثار سحر دیکھتے ہیں
غزل
اپنی پلکوں سے جو ٹوٹے ہیں گہر دیکھتے ہیں
ماہ طلعت زاہدی